Tadbirat al-ilahiyya
Author: Shaykh al-Akbar Muhyiddin Ibn al-Arabi
Reviewed by: Ahmed Muhammad Ali
Editor: Abrar Ahmed Shahi
Translator: Abrar Ahmed Shahi
Price Rs 2000/-Int'l US $ 45.
Pages: 432
ISBN: 9789699305061
Dimensions: 255 × 165 mm
Edition: 3rd. July 2020
تدبیرات الہیہ الحمد لله الذي لا إله إلا هو، والصلاة والسلام على سيدنا محمد وعلى آله وسلم تسليما كثيرا. اما بعد: آج وہ مبارک دن ہے کہ ہم آپ حضرات کی خدمت میں شیخ اکبر محی الدین ابن العربی کی کتاب «التدبیرات الإلهية في إصلاح المميكلة الإنسانية» “اصلاح انسان کی خدائی تدبیریں” تحقیق شدہ عربی متن، سلیس اردو ترجمے اور شیخ البیتامی کی شرح سے منتخب شدہ حواشی کے ساتھ شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ اس کتاب کی تالیف کے بارے میں شیخ اکبر فرماتے ہیں:" ہماری یہ کتاب لکھنے کی وجہ یہ بنی کہ جب میں نے شیخ الصالح ابو محمد الموروری سے شہر مورور میں ملاقات کی تو اُن کے پاس ’’سر الاسرار‘‘ (رازوں کا راز) نامی ایک کتاب دیکھی جو ذوالقرنین کے استاد نے اس وقت لکھی تھی جب وہ اپنے شاگرد کے ساتھ(سفر پر) جانے سے معذور تھا۔ لہذا ابو محمد نے مجھے کہا: اس مولف نے صرف دنیاوی مملکت کی تدبیر میں غور کیا ہے جبکہ میری آپ سے یہ گزارش ہے کہ آپ مملکتِ انسانی کی اُس سیاست سے اِس کا موازنہ کریں جس میں ہماری سعادت ہے۔ لہذا میں نے آپ کی فرمائش قبول کی اور اس کتاب میں (اس باطنی) مملکت کی تدبیر کے ایسے مطالب جمع کیے ہیں جو کہ اُس فلسفی (کے جمع کردہ مطالب) سے بہت زیادہ ہیں۔ میں نے اس میں اُن باتوں کو بھی واضح کیا جو وہ فلسفی اِس بڑی بادشاہت کی تدبیر میں چھوڑ گیا تھا۔ اور یہ سب میں نے شہر مورور میں چار ایام سے بھی کم وقت میں تحریر کیا۔ اُس فلسفی کی کتاب میری اس کتاب کی ضخامت کا ایک تہائی یا ایک چوتھائی ہو گی۔ (میری) اِس کتاب سے بادشاہوں کا خادم ان کی خدمت میں، اور راہِ آخرت کا مسافر اپنے نفس کی اصلاح میں فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ہر ایک کا حشر اس کی نیت اور ارادے کے مطابق ہی ہو گا۔ واللہ المستعان۔اس سے پہلے یہ کتاب عالمی افق پر متعدد بار شائع ہو چکی ہے۔ اس کا سب سے قدیمی ایڈیشن سن 1919ء میں نائبرگ کی تحقق سے شہر لیڈن میں مطبع برل سے شائع ہوا تھا۔ اس ایڈیشن کی تیاری میں اگرچہ ایک سے زائد مخطوطات سے مدد لی گئی لیکن وہ قدیمی نہ تھے، لہذا متن میں بھی سقم موجود رہا۔ پھر متعدد بار عرب دنیا میں یہ کتاب مختلف اشاعتی اداروں کی جانب سے شائع ہوتی رہی ان میں مکتبہ بحسون 1993ء، مکتبہ الثقافہ الدینیہ 1998ء دار الکتب العلمیہ2004ء اور سعید عبد الفتاح کی تحقیق سے سن 2002ء میں مکتبہ الانتشار سے شائع ہوئی۔ اگرچہ سعید عبد الفتاح نے اس کتاب کی دوبارہ سے تحقیق کی لیکن مسئلہ وہیں کا وہیں تھا؛ یعنی یہ مخطوطات قدیمی نہ تھے۔ لہذا ایک حتمی اور مستند متن کی تیاری کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جس کا اظہار محترمہ جین کلارک نے ہمارے ساتھ خط و کتابت میں بارہا کیا۔ اسی طرح اس کتاب کے مختلف زبانوں میں متعدد تراجم بھی ہوئے۔ 1973 ء میں اسے سب سے پہلے ترکی زبان میں ترجمہ کیا گیا جو استنبول سے شائع ہوا۔ پھر سن 1992 میں مصطفی طاہر علی کا کیا گیا ترکی ترجمہ استنبول سے شائع ہوا۔ 1997ء میں شیخ طوسن بیرک الجریری الخلوتی نے اس کے عربی مفاہیم کو انگریزی میں نقل کیا۔ منہج تحقیق و ترجمہ اسے حسن اتفاق کہیے یا امداد غیبی کہ خوش قسمتی سے ہمیں اس کتاب کا وہ نسخہ میسر آ گیا جس کے بعد ہمارے لیے اس کتاب پر کام کرنا بہت ہی آسان ہو گیا اور یہ مصنف کے ہاتھ سے لکھا نسخہ یوسف آغا + چوروم ہی ہے۔ مغربی خط میں لکھا یہ نسخہ نہایت ہی واضح ہے جس کو پڑھنا نہایت آسان ہے۔ اس طرح لگتا ہے جیسے شیخ اکبر نے الفاظ کو دھاگوں میں پرویا ہے، یوں اس نسخے میں عبارت کا حسن نمایاں ہے۔ اس نسخے کی دستیابی کے بعد ہمیں زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ اب ہمارے پاس ایک ایسا روشن معیار موجود تھا جس پر ہم باقی نسخوں کو پرکھ سکتے تھے۔ یوں اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہم اس کتاب کی بنیاد بننے والے عربی متن کو ترتیب دینے میں کامیاب ہو ئے اور یہ متن کافی حد تک قابل اطمینان تھا۔ اب دوسرے مرحلے میں اس عربی متن کا دیگر تین یا چار نسخوں سے موازنہ کیا جا نا تھا۔ ایک ایک لفظ کو چاروں نسخوں میں دیکھا گیا، کمی یا زیادتی کو حاشیے میں لکھا گیا اور اشکالات اور ابہامات کا ازالہ کیا گیا۔ یہ سارا عمل نہایت ہی صبر آزما اور تکلیف دہ تھا۔ لیکن اُس پاک ذات کی توفیق اور غیبی امداد سے ہم نے یہ مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے طے کیا۔ اب عبارت کو آخری اور حتمی شکل دینے کے لیے ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ ہم اسے شیخ عبد العزیز المنصوب کے پاس یمن روانہ کریں اور وہ اس کی نوک پلک سنواریں، اعراب اور علامات وقف کو چیک کریں اور آخری حتمی قابل اشاعت عبارت ہمارے سپرد کریں۔ اللہ کے کرنے سے یہ مرحلہ بھی نہایت خوبی سے سرانجام پایا۔ اب ہم پورے وثوق سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ روئے زمین پر شائع شدہ حالت میں یہی اس کتاب کا بہترین متن ہے۔ اور یہ ہمارے لیے ایک اعزاز کی بات ہے کہ شیخ اکبر ابن العربی کے علوم کی ترویج میں ابن العربی فاونڈیشن بین الاقوامی اداروں سے کسی طرح بھی پیچھے نہیں۔ اس سلسلے میں ہم اپنے تمام قارئین کو بھی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ اب ذرا اردو ترجمے کی بات ہو جائے، ا س کتاب کا اردو ترجمہ سن 2008ء میں شائع ہو چکا تھا لیکن جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا وہ ان شائع شدہ متون پر بھروسا کر کے کیا گیا تھا اور وہ ترجمہ اس مستند عبارت کے مطابق نہ تھا۔ لہذا یہ طے پایا کہ کتاب کاترجمہ الف سے ی تک مکمل چیک کیا جائے گا، صرف یہ نہیں کہ جہاں عبارت تبدیل ہو وہاں سے اسے تبدیل کر لیا جائے۔ اس کا بنیادی مقصد تو یہی تھا کہ اغلاط کو کم سے کم کیا جائے، ترجمے کو مزید سلیس بنایا جائے،چونکہ یہ ترجمہ پرانے متن سے کیا گیا تھا لہذا اس کو نئے متن سے ہم آہنگ کرنے کے لیے مکمل نظرثانی کی گئی۔ “اصلاح نفس کا آئینہ حق” کے بعد اِس کتاب میں بھی یہ خصوصیت رکھی گئی ہے کہ ترجمے میں اسلوب شیخ کی پیروی کی گئی ہے؛ مثلا نص میں جہاں آپ نے مسجع و مقفیٰ رنگ دیا ہے ترجمے میں بھی وہ رنگ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جہاں آپ حقائق کی بات کرتے ہوئے واضح کلام کرتے ہیں وہاں ترجمے میں بھی وضاحت کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔ جہاں آپ نے عربی روز مرہ اور محاورے کااستعمال کیا ہے ترجمے میں اردو روز مرہ اور محاورہ استعمال کیا گیا ہے۔ غرض اپنی طرف سے پوری کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ بھی اسلوبِ شیخ سے ہٹنے نہ پائے۔ پھر اس ترجمے کی ایک اور خصوصیت کا ذکر کرنا چاہوں گاکہ ترجمے میں موجود ہر لفظ اردو زبان کی معیاری کتب لغت سے تصدیق شدہ ہے۔ آپ کو اس ترجمے میں استعمال شدہ % 99 فیصد الفاظ کے مطلب لغت کی کتابوں میں مل جائیں گےجس کا فائدہ یقینا عام قارئین کو ہو گا۔ پہلے شیخ اکبر کے تراجم پر یہ اعتراض ہوتا تھا کہ ان میں موجود اردو الفاظ لغت کی کتابوں میں بھی نہیں ملتے تو عبارت کا مطلب کہاں سمجھ آئے گا لیکن ہماری اس کتاب میں ہر لفظ کو مستند کتب لغت سے تصدیق کے بعد شامل کیا گیا ہے۔