“يَاسَالِكُ الطَّرِيقِ! الشَّيْخُ لَيْسَ وَاسِطَة، بَلْ حَضْرَةً، وَالسَّالِكُ إِنَّمَا يُصَاحِبُ الشَّيْخَ لِيَرَى اللهَ فِيهِ، لَا لِيَرَى الشَّيْخَ عِنْدَ اللهِ۔”
“اے راہِ سلوک کے مسافر! شیخ وسیلہ نہیں، بلکہ حاضراتِ حق ہے۔ اور سالک شیخ کی صحبت صرف اس لیے اختیار کرتا ہے کہ اس میں اللہ کو دیکھے، نہ کہ یہ دیکھے کہ اللہ کے ہاں شیخ کا کیا مقام ہے۔”
پہلے میری سمجھ کیوں ادھوری رہی؟
میں اپنی اس طویل روحانی مسافت میں دو متضاد نظریات کے درمیان الجھا رہا:
- “پیر کامل صورت ظل الٰہ، دیدِ پیر، دیدِ کبریا”: یہ تعلیم سنی تھی کہ پیرِ کامل میں حق تعالیٰ کی تجلی ہوتی ہے، اس کا دیدار دراصل دیدارِ الٰہی ہے۔ مگر میرے ذہن میں سوال اٹھتا: پیر تو ایک بشر ہے، ہماری طرح مشکلات، آزمائشوں سے گزرتا ہے۔ پھر اسے یہ رتبۂ ظل الٰہ کیسے حاصل ہو گیا؟ خاص طور پر موجودہ دور کے بیشتر “پیران” کو دیکھ لینے کے بعد — جو خود حقائقِ شریعت و طریقت سے ناآشنا، محض روایتی گدی نشینی اور بیعت و خلافت کا کاروبار چلا رہے ہیں — تو یہ بات اور بھی مشکل محسوس ہوتی تھی۔ کیا واقعی ایسے شخص کو دیدِ کبریا کہا جانا چاہیے ؟
- “پیر صرف ایک وسیلہ ہے، ایک پل ہے۔ ”پھر دوسرا نظریہ دل و دماغ میں گھر کرنے لگا: شیخ تو صرف ایک واسطہ، ایک ذریعہ ہے۔ ایک پل ہے جسے پار کرنا ہے، جیسے پل سے گزر کر منزل تک پہنچا جاتا ہے، دربان کے ذریعے بادشاہ تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ اسی طرح شیخ ہمیں حق تک پہنچاتا ہے، شیخ خود مقصد نہیں، اُسے پار کر کے حق تک جانا مقصد ہے۔ کیا کوئی عقل مند دربان سے ملاقات کو ہی بادشاہ سے ملاقات تصور کرے گا ؟ یہ نظریہ پہلے والے سے زیادہ معقول لگتا، مگر حتمی تسلی پھر بھی نہ تھی ۔
میں ہمیشہ ان دونوں نظریات کے درمیان متذبذب رہا۔ ایک طرف تو ظل الٰہی کا تصور پیروں کو حق بناتا اور موجودہ پیروں پر صادق نہ آتا دکھائی دیتا، دوسری طرف “وسیلے” کا تصور شیخ، ہادی، مرشد کے اصل مقام و مرتبے کو بہت گرا دیتا تھا،
پھر شیخ احمد کے اس قول نے راز کھولا، اس ایک جملے نے میرے ذہن کے تمام گورکھ دھندے چھانٹ دیے۔ انہوں نے فرمایا:
“شیخ وسیلہ نہیں، بلکہ حاضرتِ حق ہے۔”
“حاضرات” حُضُوْری سے ہے، جس کا مطلب ہے موجودگی، جلوہ، تجلی۔ شیخ مرید کے لیے صرف ایک پل یا دربان نہیں ہے۔ بلکہ وہ اِس کے لیے خود حق تعالیٰ کی موجودگی ہے، وہ اِس کے جلوے اور تجلی کا مظہر ہے۔
اسی طرح سالک کا شیخ میں حق کو دیکھنا حق کی حضوری تک جانا ہے، کیونکہ وہ مبتدی ہے حق کی حضوری پانے کا اُس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ حق نے اس کے لیے راہ آسان کر دی کہ اسی جیسے ایک بشر میں اسے اپنا پتا بتا دیا۔ اب اس کے لیے آسانی ہے کہ وہ جب حق سے بات کرنا چاہے حق کی بات سننا چاہے شیخ سے بات چیت کرے، شیخ کی بات سنے شیخ کی بات سمجھے وہ حق کی بات پائے کا۔ اُس کا کام یہ نہیں کہ وہ شیخ کو اللہ کے پاس کھڑا دیکھے— یعنی اس کے مقام و مرتبے کا اندازہ لگانے یا اس کی شفاعت کی امید رکھنے میں لگا رہے۔ نہیں! بلکہ براہِ راست، شیخ کی ذات و صفات میں، اُس کے وجود و کلام میں، اُس کے احوال و افعال میں، جلوۂ حق کی جلوہ نمائی دیکھے ۔ اِسی موقع پر شاید بابا بلھے شاہ نے کہا:
میرا رانجھن ہن کوئی ہور
تخت منوّر بانگاں ملیاں
تاں سُنِیاں تخت لاہور
فرماتے ہیں: اگرچہ حق عرش پر ہے لیکن میں نے اُس کی پکار لاہور میں سنی، واضح رہے کہ بابا بلھے شاہ کے مرشد شاہ عنایت لاہور میں رہتے تھے۔
یہاں شیخ کا حاضرت حق ہونے کا مطلب اُس کا ظاہری جسم، اُس کی بشریت اور اُس کی ازلی حقیقت عین ثابتہ بھی نہیں۔ یہاں مراد یہ حضوری یہ حاضرت ہے، یہ مقام اور اس کی روحانی حقیقت ہے، چونکہ اصل بیعت حق کی ہے اور شیخ فقط وسیلہ ہے اسی طرح اصل حکم بھی حق کا ہے اور شیخ فقط وسیلہ ہے۔ یہی وہ نور یا حقیقت ہے جو مرید کی رہنمائی کرتی ہے۔ اگر شیخ “حاضراتِ حق” نہ ہوتا — یعنی اس میں حق کی تجلی اور ہدایت کا سرچشمہ موجود نہ ہوتا — تو وہ کسی کو کچھ نہ سکھا سکتا، نہ ہی راہ دکھا سکتا۔ اصل ہادی تو اللہ ہی ہے، وہی اپنے خاص بندوں (شیوخ) کے قلب و زبان سے ہدایت عطا فرماتا ہے۔
جو مرید اپنے شیخ کو محض ایک انسان، اپنے جیسا بشر سمجھتا ہے، وہ درحقیقت حاضراتِ حق کی بے توقیری کرتا ہے۔ اُس کا دل اِس “باطنی نور”، اس “تجلی” کے لیے نہیں کھلتا ۔ اُسے وہ نفع نہیں ملتا جو راہِ سلوک کا اصل مقصد ہے۔ اور جو مرید پورے یقین اور ادب کے ساتھ اپنے شیخ کو “حاضراتِ حق” سمجھتا ہے، شیخ میں حق کی جلوہ گری دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، وہ کامیاب ہوتا ہے۔ اس کی نظر تجلیاتِ الٰہیہ پر ہوتی ہے، نہ کہ کسی مخلوقی سہارے پر ۔
یہ وہ علمِ لدنی ہے جو شیخ کی زبانِ مبارک سے جاری ہوا اور جس نے میرے سالوں کے اشکالات و تذبذب کا قلع قمع کر دیا۔ اس فہمِ تازہ نے میرے اپنے شیخ کے ساتھ تعلق کو نئی معنویت بخشی ہے، اور مجھے ان ساتھیوں کی رہنمائی کے لیے بھی واضح بنیاد فراہم کی ہے جو میرے اعتماد میں آئے۔ یہ میرے روحانی سفر کا ایک اہم موڑ ہے، جسے میں اپنی یادداشتوں میں محفوظ کرتا ہوں۔
(دستخط)
ابرار احمد شاہی