new one

Mawaqi al-Nujum

Mawaqi al-Nujum

Preimium Edition
مواقع النجوم اردو
Author: Shaykh al-Akbar Muhyiddin Ibn al-Arabi
Editor: Ahmed Muhammad Ali, Abrar Ahmed Shahī
Translated by: Abrar Ahmed Shahi
No of Volumes: 2
Urdu Pages: 370
ISBN: 9789699305139
 Dimensions: 5.5 × 8.5 cm
Edition: 22st. Oct 2022
Arabic pdf [€25 ]
Composed in Almeria over the course of eleven nights during Ramadan in 595/1199, this book was dedicated to Ibn al-'Arabi's disciple Badr al-Ḥabashi. Within its pages, the author expounds upon the three levels of surrender (islām), faith (īmān), and right action (iḥsān), as well as their corresponding degrees of potential realization. Of particular note is Ibn al-'Arabi's discussion of the seven external bodily parts, including the eyes, ears, tongue, hands, stomach, genitals, and feet, and how they may be utilized in the act of Divine praise. The author underscores the importance of extending Divine mercy to others, stating "This is the Mercy which has extended over you – so extend it!" Furthermore, Ibn al-'Arabi emphasizes that this book is not only meant for disciples, but also for masters, as it represents the highest level attainable in the sacred Law of worship. The benefits of this book, according to the author, are immense and those who possess it will find sustenance in its pages with the aid of God
سب سے پہلے میں اپنے شیخ احمد محمد علی کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ آپ ہی کے تعاون سے ہم اس کتاب کے عربی متن اور اردو ترجمہ کی درستگی کے قابل ہوئے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ اس کے بعد ہم ابن عربی سوسائٹی اُوکسفورڈ کے شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے اس کتاب کی بنیاد بننے والے قدیمی مخطوطات کی فراہمی یقینی بنائی۔ اسی طرح کتاب کے پہلے ایڈیشن کے متن میں ہمیں استاذ منصوب اور ان کی ٹیم کا تعاون درکار رہا۔ اِسی طرح ہم ان تمام مکتبات کے بھی شکر گزار ہیں جن کے مخطوطات اِس ایڈیشن میں شامل کیے گئے۔ اللہ تعالی ان سب کو اس عمل کی بہترین جزا دے اور ہماری اس کوشش کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے آمین! یا رب العالمین۔
 اِس کتاب كی متعدد طباعات کی تفصیل درج ذیل ہے:
 النعسائی ایڈیشن 1907ء
:
1907ء میں قاہرہ سے شائع ہونے والے ایڈیشن میں مخطوطات کا حوالہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ اصل متن کہاں سے اخذ کیا گیا ہے لیکن اس کتاب کے آخر میں ہمیں ایک عبارت ملتی ہے جس میں یہ واضح طور پر لکھا کیا گیا ہے کہ حسب استطاعت اس ایڈیشن کی تصحیح کی گئی ہے۔ وہ عبارت درج ذیل ہے:

تم ولله الحمد طبع هذا الكتاب الجليل على أكمل وضع مع بذل الجهد في تصحيحه حسب الطاقة. وكان ذلك في منتصف الربيعين لسنة 1325 هجرية وكان ذلك في مطبعة السعادة بمصر إدارة صاحب الخلق الجميل محمد أفندي إسمعيل. والحمد الله أولا وآخرا وصلى الله على سيدنا محمد وآله وصحبه أجمعين آمين

آمين. اس عبارت سے واضح ہے کہ سید محمد بدر الدین النعسائی نے متن کی تصحیح میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اب اس تصحیح کی نوعیت کیا ہے یہ نہیں بتایا گیا۔
 مطبعہ گلزار بمبئی ایڈیشن
:
 اس کے بعد اگر ہم بمبئی کے مطبع گلزار حسنی کی طباعت کو دیکھتے ہیں تو اس میں نہ سن طباعت درج ہے، نہ محقق کا ذکر ہے اور نہ ہی کوئی مقدمہ ملتا ہے۔ جب ہم نے اس متن کا النعسائی ایڈیشن سے موازنہ کیا تو یہ بات واضح ہوئی کہ یہ ایڈیشن النعسائی ایڈیشن سے زیادہ بہتر ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ استاذ منصوب کے ایڈیشن کے بعد یہی سب سے بہتر ایڈیشن ہے تو غلط نہ ہو گا۔ اور اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ برصغیر میں بسنے والوں نے علمی دیانت داری میں عربوں سے بہتر معیار اپنایا ہے۔
عالم الفکر ایڈیشن 1998 ء:
 سعید عبد الفتاح نے اپنی کتاب میں جس طباعت کو سامنے رکھا وہ یہی طباعت ہے۔ اس بارے میں آپ لکھتے ہیں: عالم الفکر سے طبع ہونے والی اس اشاعت میں مواقع النجوم کتاب کے ساتھ چند رسائل بھی شائع کیے گئے ہیں۔ اس طباعت میں آیات قرآنی اور چند احادیث نبوی کی تخریج بھی شامل ہے لیکن یہ تحقیق ابھی بھی بہت سے کلمات کا معمی حل کرنے میں ناکام ہے۔ اس کے بعد آپ نے اس عمل میں اپنا حصہ ڈالنے والوں کو مبارک باد دی کہ انہوں نے اس وقت شیخ اکبر کی یہ کتاب شائع کی جب اس کی زیادہ ضرورت تھی۔ آخر میں آپ یہی کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر آپ کی طباعت اور عالم الفکر کی طباعت کو سامنے رکھ کر پڑھا جائے تو حیرانی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

دار المحجة البيضاء ایڈیشن 2000ء:
  
دار المحجة البیضاء سے چھپنے والا متن النعسائی ایڈیشن کی فوٹو کاپی ہے، لہذا یہ ایڈیشن صرف تجارتی مقاصد کے لیے شائع کیا گیا۔ یہ النعسائی ایڈیشن سے بھی کم درجہ معیار رکھتا ہے کیونکہ اس میں پروف کی غلطیاں ہیں۔

سعید عبد الفتاح ایڈیشن 2007ء:
 دار الکتب العلمیہ سے شائع ہونے والا متن تحقیق شدہ متن ہے۔ محقق سعید عبد الفتاح نے ایک مخطوط اور طبع شدہ متن سے اس کا تقابل کیا ہے۔ مقدمے میں آپ لکھتے ہیں:

اعتمدت في تحقيقي لهذا الكتاب على نسختين إحداهما مطبوعة، والأخرى مخطوطة. والسبب الذي جعلني أعتمد على نسخة واحدة مطبوعة هو أن القائمين على طباعة النسخ التي طبعت من هذا الكتاب كلهم نقلوا من نسخة واحدة، فلما اعتمدنا هذه النسخة التي بأيدينا للمقابلة عليها وجدنا الأمر به نفس المشاكل أو المشكلات التي في سابقتها، ومع ذلك تميزت هذه النسخة بتخريج الآيات القرآنية وبعض الأحاديث، ولكن زادت عليها مشكلات عدم فهـم الكتابة الصوفية والاقتراب كذلك من هذه الألفاظ الصوفية، ولو نقف على هذه الأخطاء كلها لزاد حجم الكتاب، وتعثرت مع ذلك القراءة وهي الأساس التي بنينا عليها عملنا.

اپنی تحقیق کے بارے میں آپ کا کہنا ہے: “میں نے اپنی اس تحقیق میں اللہ عزوجل سے مدد طلب کی؛ کیونکہ وہی بہترین مولی اور مدد گار ہے۔ میں نے دو نسخوں کا موازنہ کیا لیکن مخطوط بھی اچھی حالت میں نہیں تھا، لیکن اللہ کی مدد سے ان تمام خامیوں پر قابو پا لیا۔ میں نے حاشیے میں اکثر متغیرات قلم بند کیے ہیں، اگر میں اس بارے میں تمام متغیرات لکھتا؛ تو اِس کے لیے بہت وقت درکار ہوتا اور دوسرا کتاب کے صفحات اس حد تک بڑھ جاتے کہ اصل متن کو پڑھنا مشکل ہو جاتا۔ اکثر قاری میرا یہ عذر قبول کریں گے۔ اگر کوئی اس کتاب پر ہمارا کام دیکھنا چاہتا ہے تو اپنے سامنے پہلی طباعات بھی رکھ لے اور یہ کتاب بھی کھول لے۔ اس پر واضح ہو جائے گا کہ ہم نے اس پر کتنی محنت کی ہے۔ میں نے دو مطبوع نسخوں کو سامنے رکھا ہے اور یہ بات حتمی ہے کہ بعد والا پہلے سے ہی نقل شدہ ہے لیکن پھر بھی دونوں کی عبارات میں فرق ہے۔”
جہاں تک میں نے اس متن کا دیگر متون سے موازنہ کیا ہے تو یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ سعید عبد الفتاح صاحب بھی اپنی مرضی سے الفاظ حذف اور تبدیل کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ چاہیے تو یہی تھا کہ آپ مخطوط اور مطبوع کے ساتھ چلتے لیکن چند مقامات پر آپ نے سب سے جدا متن پیش کیا ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے۔ پھر آپ نے مخطوط کے متغیرات کی حاشیہ بندی میں بھی سہل پسندی سے کام لیا ہے۔ ہاں اتنا واضح ہے کہ آپ نے النعسائی ایڈیشن سے متن اخذ نہیں کیا۔ ویسے یہ ساری باتیں تو آپ مقدمے میں خود بھی کہہ چکے ہیں اور اس پر میرا تبصرہ یہی ہے کہ محقق نے انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے یہ تک کہہ دیا ہے کہ میں نے اپنی پوری کوشش کر لی ہے لیکن ابھی میرے خیال میں اس کتاب پر مزید کام کی گنجائش ہے اور میں اپنی تحقیق کو حتمی قرار نہیں دیتا۔

استاذ منصوب ایڈیشن 2016ء:
اگر ہم جدید تحقیق کے معیارات کو سامنے رکھیں تو اِس اشاعت کو کتاب کی بہترین اشاعت قرار دے سکتے ہیں۔ محقق عبد العزیز سلطان المنصوب نے عقلی معیارات کے مطابق حق ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اس تحقیق میں محقق نے پانچ بہتر مخطوطات کا استعمال کیا ہے اور ان پانچ میں سے دو نسخے تو در حقیقت اس کتاب کی کسی بھی تحقیق میں شامل ہونے کے لائق ہیں۔ ایک نسخہ یوسف آغا 5001؛ جو شیخ صدر الدین قونوی کے ہاتھ سے لکھا نسخہ ہے اور جس پر شیخ اکبر کے دستخط بھی موجود ہیں۔ اور دوسرا نسخہ مکتبہ شوری ملی 594؛ یہ محرم سن 653 ھ میں نقل ہوا اور جس نسخے سے یہ نقل ہوا وہ سن 606ھ میں نقل ہوا ہے۔ یوں یہ دونوں نسخے ہی اس کتاب کے بہترین نسخے ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے مزید تین نسخوں سے بھی متن کا موازنہ کیا ہے۔ چنانچہ علمی معیارات اور میسر نسخوں کے حوالے سے آپ کا کام بہترین ہے لیکن اِس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے اور ہم نے اپنی اس جدید تحقیق میں مزید دو قدیمی نسخے شامل کر کے متن کو مزید بہتر کیا ہے جس کے نمونے آگے پیش کیے جائیں گے۔
عبد العزیز سلطان المنصوب اپنی تحقیق کے مقدمے میں لکھتے ہیں: “اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ اکبر نے اس کتاب کو – جو بڑی کتاب بھی نہیں – جو اہمیت بخشی یا اِس کی تعریف کی تو اسی کے نتیجے کے طور پر اکثر متصوفین نے اسے بکثرت نقل کیا تاکہ اس سے استفادہ حاصل کریں۔ اور کثرتِ نقل سے ہی اس کتاب کے الفاظ اور عبارات بہت حد تک تبدیل ہوتے گئے۔ ” 
آگے فرماتے ہیں: “فتوحات مکیہ کی اشاعت کے بعد ہم مواقع النجوم پر تحقیق کرنا چاہتے تھے، باوجود اس کے کہ اس کتاب کے متعدد محقق ایڈیشن بھی بازار موجود ہیں لیکن جب ہم نے ان میں سے چند اشاعتوں پر ایک نظر ڈالی تو ہمیں بہت جلد ہی ان کے نقائص سے آگاہی ہو گئی۔ ان نقائص کی ایک بڑی وجہ تو وہ مخطوطات ہیں جن پر تحقیقی عمل کے دوران بھروسا کیا گیا۔ اور اگر کوئی صاحب ان مخطوطات کی غلطیاں خود دیکھنا چاہے تو وہ فقط ان صفحات کا موازنہ کر لے جو کسی بھی اشاعت میں عکسی صورت میں شائع کیے گئے۔ اسے انہی چند صفحات سے یہ اندازہ ہو جائے گا کہ اس کتاب کی عبارت میں کس قدر غلطیاں ہوئیں ہیں۔”
آگے فرماتے ہیں: میرا یہ سب کہنا ان محققین کی توہین نہ سمجھا جائے، ہمارا گمان یہی ہے کہ انہوں نے حُسنِ نیت سے ان کلمات اور عبارات کو درست کیا ہو گا۔ لیکن تحقیق کا تقاضا یہ بھی ہے کہ پھر حتی الامکان کوشش کی جائے اور کوئی عذر بہانہ نہ اٹھایا جائے۔ آپ نے اپنی تحقیق میں چند ایسی مثالیں پیش کی ہیں جو پہلے سے شائع شدہ نسخوں میں بالکل ہی مرادِ شیخ کے الٹ چھپی ہیں۔

عبد العزیز سلطان المنصوب کی تحقیق پر میرا تبصرہ یہی ہے کہ آپ نے میسر نسخوں کے حوالے سے تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم آپ کے ایڈیشن کو حتمی ایڈیشن قرار نہیں دے سکتے کیونکہ چند دیگر نسخوں کے تقابل سے ہمیں چند مقامات پر عبارت کو مزید درست کرنے کا جواز بھی ملا ہے۔ ہم آگے چل کر مثالوں سے یہ سب واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
سب سے پہلے اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ استاذ المنصوب نے جب اس کتاب کا ایک جدید ایڈیشن مرتب کیا تو ہمیں بھی اس کی ایک کاپی ارسال کی تاکہ ہم اسے ابن العربی فاونڈیشن سے بھی شائع کریں۔ پہلے ہمارا ارادہ اس کو من و عن چھاپنے کا تھا لیکن جب ہمیں اپنے شیخ سے اِس کی اشاعت کی اجازت نہ ملی اور اِس میں اغلاط کی نشاندہی ہوئی تو ہم نے ایک جدید متن پر کام شروع کیا۔ ہم نے استاذ المنصوب کے ایڈیشن کا تین مزید مخطوطات سے موازنہ کیا۔ ان میں سے ایک نسخہ تو اس کتاب کے اولین نسخوں سے نقل شدہ تھا اور اکثر مقامات پر وہ ایک بہترین متن پیش کرتا بھی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن باقی دو نسخے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ لہذا دوسرے مرحلے میں عربی متن کا دیگر تین نسخوں سے موازنہ کیا گیا۔ ایک ایک لفظ کو تمام نسخوں میں دوبارہ دیکھا گیا، کمی بیشی کو حاشیے میں لکھا گیا اور اشکالات اور ابہامات کا ازالہ کیا گیا۔ یہ سارا عمل نہایت ہی صبر آزما اور تکلیف دہ تھا۔ لیکن اُس پاک ذات کی توفیق اور غیبی امداد سے ہم یہ مرحلہ بھی احسن طریقے سے طے کرنے میں کامیاب ہوئے۔اپنی طرف سے تحقیق کر لینے کے بعد ہم نے اِس متن کی شیخ احمد محمد علی سے تصدیق کروائی، متغیر الفاظ کے بارے میں پوچھا اور آپ کے اِس بے مثال تعاون کے باعث ہی ہم اس کتاب کا بہترین متن تیار کر سکے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اس عمل کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے، آمین
کسی بھی غیر معروف کلام کا کما حقہ ترجمہ کرنا ممکن نہیں، اور شیخ اکبر کا کلام تو الہیات کے بلند ترین مدارج میں سے ہے۔ ہم نے اللہ کا نام لے کر اِس عمل کی ابتداکی، ترجمہ کرنے میں ہمارا اسلوب یہ ہے کہ سب سے پہلے سلیس عبارات کا ترجمہ کرتے ہیں اور مشکل عبارات چھوڑتے جاتے ہیں، یوں دوسے تین ماہ کی محنت کے بعد ترجمے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوتا ہے۔ جس میں اس کتاب کا ایک ابتدائی مسودہ تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حسب عادت ایک بار پھر اصل عربی سے ملا کر مکمل ترجمہ چیک کیا جاتا ہے، اغلاط کو کم سے کم کیا جاتا ہے اور ترجمے میں مزید سلاست اور نفاست اپنائی جاتی ہے۔ دوسری مرتبہ اُن مقامات پر بھی غور کیا جاتا ہے جو پہلی بار ترجمہ ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ چونکہ ترجمے کا پہلا مسودہ پرانے متن سے کیا گیا تھا لہذا اِس کو نئے متن سے ہم آہنگ کیا گیا۔

 حسب روایت اِس کتاب کے ترجمے میں بھی یہ خصوصیت رکھی گئی کہ شیخ اکبر کا اسلوبِ عبارت نقل کیا گیا، ترجمے میں بھی وہی طرز اپنانے کی کوشش کی گئی جو اصل متن میں ہے؛ مثلاً نص میں جہاں آپ نے مسجع و مقفیٰ رنگ دیا ہے ترجمے میں بھی وہ رنگ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جہاں آپ حقائق کی بات کرتے ہوئے واضح کلام کرتے ہیں وہاں ترجمے میں بھی وضاحت کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔ واقعات میں جہاں آپ نے عربی روز مرہ اور محاورے کا استعمال کیا، ترجمے میں بھی اردو روز مرہ اور محاورے کا استعمال کیا گیا ہے۔ غرض اپنی طرف سے پوری کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ بھی اسلوبِ شیخ سے ہٹنے نہ پائے۔
ہم نے اس عبارت کو اشاعت کے بنیادی اصولوں سے مزین کر کے شائع کیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
  1.  عربی متن میں موجود تمام قرآنی آیات کی تخریج کی گئی ہے۔
  2.  عربی متن میں مشکل مقامات پر حاشیے میں حسبِ استطاعت سلیس معانی درج کیے گئے ہیں اور یہی اسلوب اردو ترجمے میں بھی اپنایا گیا ہے۔
  3.  کتاب کا ترجمہ سلیس کیا گیا ہے اور ہر مشکل عربی لفظ کے مقابل اردو لفظ لانے کی کوشش کی گئی ہے الاّ یہ کہ وہ شیخ اکبر کی اصطلاح ہو۔ لفظ بلفظ ترجمے سے اجتناب کیا گیا ہے، لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر کماحقہ ترجمہ کرنا ممکن نہیں۔ عربی متن پیش کرنے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ کلام سے دلیل پکڑنے کی غرض سے اصل عربی سے رجوع کیا جائے اور ترجمے کو صرف فہم کا ایک ذریعہ سمجھا جائے، بلکہ جو حضرات عربی پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں انہیں عربی متن ہی پڑھنا چاہیے۔
  4. علوم شیخ اکبر کی ترجمانی کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہم نے اپنے شیخ کی برکت سے ایک کوشش کی ہے لیکن اگر کسی مقام پر ہم عربی متن اور ترجمے کو شیخ اکبر محی الدین ابن العربی ﷬ کی مراد کے مطابق پیش نہیں کر سکے تو ہم ان سے معافی کے خواستگار ہیں۔
  5. کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں بین الاقوامی معیار کو سامنے رکھا گیا ہے۔